ایک ایسا انڈین شخص جو کبھی کنگ اف گڈ ٹائمز کہلایا جاتا تھا اپنے وقت میں وہ مہاراجہؤں والی زندگی گزارتا تھا ایک ہی رات میں کروڑوں روپے کی پارٹی کرتا اور جہاں دنیا بھر کے بلینیرز پرائیویٹ جیٹ رکھتے ہیں وہیں اس کے پاس اپنا پرائیویٹ بوئنگ 727 تھا لیکن اج اس کا نام انڈین ہسٹری میں کیے جانے والے سب سے بڑے فراڈ کیس سے جوڑا جاتا ہے جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں وجے مالیہ کی کنگ فشر وہ نام تھا جس نے اسے ہر اس چیز کا مالک بنایا جسے ایک عام ادمی سپنے میں دیکھتا ہے لیکن اخر میں ایسا کیا ہوا جو یہی نام اسے پوری طرح سے لے ڈوبا ناظرین 1955 میں وجے مالیہ کا جنم ایک رئیس گھرانے میں ہوا اور بچپن سے ہی اس نے اپنی لائف میں صرف پیسہ ہی پیسہ دیکھا فادر وٹل ماریہ کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی کیونکہ انڈیا کی زیادہ تر لیکر انڈسٹری پر ان کا کنٹرول تھا وہ یونائٹڈ برووری کے ڈائریکٹر اور سب سے بڑے شیئر ہولڈر تھے اپنے بزنس نیچر کی وجہ سے ملک بھر میں انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا وہ میڈیا سے دور رہتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اکثر اپنے خلاف نیوز چلنے سے پہلے ہی پیسے دے کر اسے رکوا دیتے تھے ویلے مالیہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا وہ بچپن سے ہی مہاراجاؤں والی زندگی گزارتا تھا پر اس کے شوق کچھ الگ ہی تھے وہ بچپن سے ہی گاڑیوں کا بہت شوکنگ تھا اور جس وقت انڈیا میں بچے لٹو اور کنچے کھیلتے تھے وجے مالیہ ریموٹ کنٹرولڈ گاڑیوں سے کھیلتا تھا ٹوٹل مالیہ نے اس کے منہ سے قوی چاندی کا چمچ نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وجے جب پڑا ہوا تو اس کے شوق بھی ویسے ہی تھے وہ اب کھلونوں والی نہیں بلکہ اصلی گاڑیوں کا شوقین ہو گیاڈائ سو کے قریب ونٹیج کارز کی کلیکشن اور 200 سے زیادہ گھوڑے اس نے صرف شوق میں پالے تھے اس کا یہ شوق وڈل مالیہ کو پسند نہیں تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ایسے شوق پالنے والا انسان ایک اچھا بزنس مین نہیں بن سکتا لیکن مہاراجہ کے شوق کا کوئی مول نہیں تھا وجے مالیہ نے 1982 میں انڈین گرینڈ بریک اوارڈ جیتا اور ٹرافی اپنے نام کر کے نیشنل چیمپین بن گیا وہ اپنے اس شوق کو نیکسٹ لیول پہ لے کے جاتا لیکن پھر ایک واقعہ ہوا جس سے اس کی لائف کا ٹریک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گیا وٹل مالیہ کی اچانک ہارٹ اٹیک سے موت ہو گئی وجے اس وقت 28 سال کا تھا اور اس صدمے نے اس کی زندگی بدل دی جس عمر میں وہ ازاد اور لاپرواہ رہنا چاہتا تھا تب اس کے کندھوں پر باپ کی بزنس ایمپائر سنبھالنے کی ذمہ داری اگئی اس وقت کئی قریبی لوگوں کا ماننا تھا کہ وجے کیونکہ مہاراجہوں والی زندگی کا عادی ہے اس لیے وہ اتنی بڑی بزنس ایمپائر نہیں چلا پائے گا لیکن جیسا سوچا گیا وجے نے بالکل اس کا الٹ کیا یونائٹڈ بوری کی تمام پروڈکٹس میں سے ایک کنگ فشر نے وجے کو سب سے زیادہ اٹریکٹ کیا کیونکہ باپ کے مرنے سے چند سال پہلے ہی وجے نے خود اسے لانچ کیا تھا کیونکہ وجے اس وقت خود بھی ینگسٹر تھا تبھی اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر کنگ فشر کو مارکیٹ میں ہٹ کروانا ہے تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ینگسٹرز کو ٹارگٹ کرنا بینگلور انڈیا کا وہ پہلا شہر تھا جہاں سے ببز کا کلچر سٹارٹ ہوا اور یہیں چھپی تھی کنگ فشر کی کامیابی اس نے مختلف طریقوں سے کنگ فشر کو ینگسٹرز کے بیچ انٹروڈیوس کروایا جہاں پبز میں اچھا ماحول دیا جاتا خاص طور پر لڑکیوں کے لیے یہ ٹرینڈ کافی وائرل ہو رہا تھا ینگسٹرز رات چار بجے تک پپس میں ہی بیٹھے رہتے بنگلور جہاں پہلے صرف ایک بپ تھا پانچ سالوں کے بعد وہاں 40 نئے پبز کھل گئے اور اس کا ڈائریکٹ فائدہ کنگ فشر اپنے نام کر رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی سالوں میں کنگ فشر نے برینڈ کی شکل اختیار کر لی لوگ اب بیر نہیں بلکہ کنگ فشر کا نام لے کر ڈرنک مانگنے لگے اس وقت کئی انڈین پولیٹیشنز نے اس ویسٹرن کلچر کے خلاف اواز بھی اٹھائی لیکن وجے کو کسی کی پرواہ نہیں تھی وہ صرف یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اس نے یونائٹڈ ضروری کی سکسیس کو اسمان کی اونچائیوں تک پہنچا دیا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا یو بی انڈیا کا سب سے بڑا لیکر مینوفیکچرر بن چکا تھا یہاں تک کہ ہر دو میں سے ایک بٹل کنگ فشر کی سیل ہونے لگی وجے مالیہ اس وقت بادشاہوں والی زندگی گزار رہا تھا انڈیا میں اس کا نام کافی انسپائرنگ تھا کیونکہ جس وقت انڈیا میں عام سی گاڑی خریدنا بھی لوگوں کا سپنا تھا اس وقت مالیہ بی ایم ڈبلیو مرسیڈیز اور پورشے جیسی گاڑیوں میں گھومتا لوگ اس کو پرنس اف انڈیا مہاراجہ اور ریچسٹ مین اف انڈیا جیسے ناموں سے جانتے تھے وجے مالیہ کو لگ رہا تھا کہ اگے بھی سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا لیکن یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی انڈیا میں شراب کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا خاص طور پر بب جیسے ویسٹرن کلچر کو اور اس سب کو لے کر انڈین سرکار کے ارادے کچھ الگ تھےان ارادوں کا پریکٹیکل وجے مالیہ کے لیے برے سپنے سے کم نہیں تھا انڈیا کے کافی حصوں میں شراب پر پابندی لگا دی گئی کنگ فشر کی سیلز تیزی سے گرنے لگی اور برینڈ اسٹیٹس میں سرکار نے ڈھیر ساری بٹلز کو پکڑ کر اس پہ روڈ رولر چلانا شروع کر دیے یہ وجے مالی کا ہونے والا ڈائریکٹ تھی اس کے بعد انڈین سرکار نے وجے مالیہ کے خلاف گھیرا مزید تنگ کرتے ہوئے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی کیونکہ جن اسٹیٹس میں لیگل بیچنے کی پرمیشن بھی تھی وہاں پر بھی اب ٹی وی اور نیوز پیپرز میں شراب کی ایڈورٹائزمنٹس پر بین لگا دیا گیا یہ فیصلہ عین اس وقت کیا گیا جب مالیہ اپنے بزنس کی گروتھ پر فوکس کر رہا تھا اس موڑ پر کنگ فشر کی ایڈورٹائزنگ کا ایسا طریقہ اپنایا گیا جسے سرو گریٹ ایڈورٹائزنگ کہتے ہیں یہ ایڈورٹائزنگ ٹیکنیک دنیا بھر میں خاص طور پر ان پروڈکٹس کے لیے استعمال ہوتی ہے جن کی ایڈورٹائزنگ پہ بین لگا ہو اس میں کوئی بھی برینڈ اپنی پروڈکٹ کو دوسری پروڈکٹ کی اڑ میں مارکیٹ کرتا ہے جن کی سیل پر کوئی ریسٹرکشن نہیں ہوتی اب کنگ فیچر انڈیا میں جانا مانا برینڈ تو تھا ہی اس لیے وجے مالیہ نے کنگ فشر منرل واٹر اور سوڈا واٹر لانچ کیے اور ان کی ایڈورٹائزنگ کرنے لگے بھلے ہی وہ ایڈ پانی کا تھا لیکن سب کو معلوم تھا کہ یہ کس چیز کی مارکیٹنگ ہے 1996 میں جب ورلڈ کپ انڈیا ہوسٹ کر رہا تھا تب بھی کنگ فشر نے ایک وائرل ایڈورٹائزنگ کا سہارا لیا اور اپنی ٹارگٹ اڈینس تک اواز پہنچائی وہ کنگ فشر کو ایک نیشنل برانڈ بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا ایک ایسا برانڈ جس کا نام ہر دوسرا ادمی جانتا تھا وجے مالیہ ہر ایج گروپ کے لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کا ہنر سیکھ چکا تھا اس نے ہر اس چھوٹے بڑے ایونٹ کو اسپانسر کرنا شروع کر دیا جہاں میڈیا کی پریزنس ہوتی تھی اور اس طریقے سے نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا پر کنگ فشر کا نام چل جاتا بعد میں کنگ فشر کیلنڈر بھی لانچ کیا گیا جس میں انڈین ماڈلز کے فوٹو شوٹ کا کمپٹیشن کروایا جاتا اس کیلنڈر کے ذریعے بالی وڈ کے کئی بڑے ناموں کا جنم ہوا جس میں دپیکا پٹوکون جنہوں نے 2006 میں کیلنڈر گرل کا ٹائٹل جیتا اور 2008 میں ان کی پہلی مووی ریلیز ہوئی اسی طرح کترینہ کیف اور نرگس فخری جیسے نام بھی اسی کیلنڈر کی وجہ سے اٹھے کنگ فشر کیلنڈر کے لیے ماڈلز وجے مالیہ خود ہی چنتا تھا اور یہ کیلنڈر 203 سے شروع ہو کر اگلے 19 سالوں تک چلتا رہا مالیا نے انڈیا میں پینے کا کلچر اس حد تک ایڈورٹائز کیا جس کا اندازہ لگانا بھی کافی مشکل ہے کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اس کے پاس نہ ہو ڈالر شہرت اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا برانڈ جو سونے کے انڈے دینے والی مرغی سے کم نہیں تھا ایک پاور کی کمی تھی وہ بھی اس نے پولیٹکس جوائن کر کے پوری کر لی اس کو صرف ایک چیز بہت خراب لگتی تھی اور وہ تھا اس کو دیا گیا ایک ایسا نام جو اس کے پروفیشن سے جڑا تھا جی ہاں شراب کا بے تاج بادشاہ یا پھر لکھ کر پیرم اندر ہی اندر مالیہ کو یہ چیز کھا رہی تھی کہ انڈیا میں اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا بے شک سب اس کے اگے پیچھے گھومتے ہیں لیکن وہ بھی جانتا تھا کہ یہ سب پیسے کا کمال ہے وجے مالیہ کو ایک ایسا نام کمانا تھا جو اسے سماج میں عزت دے سکے اسی لیے اس کے دل میں ایک خطرناک پلان بن رہا تھا ایک ایسا پلان جو وجے مالیہ کا کنگ اف گڈ ٹائمز کا ٹائٹل چھیننے والا تھا 2004 میں وجے مالیہ نے 12 ایرورس اے320 خریدے جن کی ویلیو 240 ملین ڈالرز تھی اور کنگ فشر کے نام سے ہی ایک لگزری ایئر لائن لانچ کرنے کی اناؤسمنٹ کر ڈالی وہ عام ادمی کا فلائنگ ایکسپیرینس اپگریڈ کرنا چاہتا تھا تو ایئر لائن کے کمرشل میں بتایا گیا کہ وہ فلائٹ اٹینڈنٹس نہیں بلکہ ماڈلز ہائر کرتے ہیں ایئر لائن کی دھماکے دار لانچ کے لیے ایک بہت بڑا ایونٹ رکھا گیا جس میں ملک بھر سے ہائی پروفائل گیس کو بلایا گیا اپنے بیٹے کی 18 برتھ ڈے پر کنگ فشر ایئر لائنز کو لانچ کیا گیا یہ بالکل الگ طرح کی ایئر لائن تھی اس لانچ ایونٹ کی وجہ سے کنگ فشر کا نام دنیا بھر میں چھا گیا اور وہ ایک لائف سٹائل برینڈ کے طور پہ ابھرنے لگا ایئر لائن کی فلائٹ اٹینڈنٹ سے لے کر کھانے کا مینیو تک وجے مالیہ خود سلیکٹ کرتا تھا اور ان ماڈلز کا یونیفارم فیمس فیشن ڈیزائنر منیراج کھوسلا سے ڈیزائن کروایا گیا اس ایئر لائن میں نہ ایک کلاس تھی نہ اکنامک لاس پر اس کو لگزری ایئر لائن کہا جاتا کیونکہ وجے کا کہنا تھا کہ اس میں ان کی اپنی لیکچرری کلاس ہے کنگ فشر کلاس اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا فلائٹ میں ایسی لگزری سروسز دی گئی جو اس بجٹ کی ٹکٹ میں دوسری ایئر لائنز نہیں دے سکتی تھی دیکھتے ہی دیکھتے کنگ فشر نے بھارت میں ایر لائن انڈسٹری کو بدل کر رکھ دیا اب اہستہ اہستہ وجے مالیہ کی وہ لیکر بیرن والی امیج بدلنے لگی کیونکہ اس کے پاس شراب بیچنے کے علاوہ ایک ایئر لائن بھی تھی وجے مالیہکنگ فشر ایر لائن پر پیسہ پانی کی طرح بہا رہا تھا ایک دن ایئر بس کی فیکٹری ٹور پہ اس کو سیل سٹیم نے گھیر لیا اور ایسی ایسی چیزیں دکھائیں کہ اسی دن مالیہ نے ان سے ایک ارب ڈالرز کے نئے جہاز خرید لیے معاملہ اب بجٹ ایئر لائن سے ہٹ کر پریمیم کلاس کی طرف جانے لگا جو کہ اصل میں مارکیٹ کی ڈیمانڈ نہیں تھی کیونکہ زیادہ تر ٹریولرز کم بجٹ میں ٹریول کرنا چاہتے تھے پہلے جہاں کوئی کلاس نہیں تھی اب ایک کلاس لانچ کی گئی جس میں بیسٹ چیزیں سرو ہونے لگی لگژری سیٹنگ پریمیم سروس اور کھانا ایسا جو شاید میجورٹی انڈینز نے پہلے کبھی نہیں کھایا تھا جیسا کہ لابسرز جن کا نام بھی اکثر پیسنجرز پہلی بار سن رہے تھے نئی کلاسز لانچ کرنے اور ایکسٹرا ایر بس خریدنے کی وجہ سے ایئر لائن کی اپریشنل کاسٹ کافی بڑھ گئی زیادہ گراؤنڈ سٹاف اور ایکسٹرا فلائٹ اٹینڈنس ہائر کی گئی جبکہ لگزری کلاس کی ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے سیلز پر کوئی خاطر خواہ فرق نہ پڑا اس کی وجہ سے پہلے 18 مہینوں میں کنگ فشر ایئر لائن کو 347 کروڑز کا نقصان ہوا وجے کے لیے یہ معمولی رقم تھی اور اس کنڈیشن میں بھی وہ ایئر لائن پر مزید پیسہ لگاتا گیا کنگ فشر ایر لائن پہلے صرف ڈومیسٹک فلائٹ چلاتی تھی اور وجے مالیہ کو انٹرنیشنل فلائٹس لانچ کرنے کی بہت جلدی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی ایئر لائن انٹرنیشنل فلائٹس تب تک لانچ نہیں کر سکتی جب تک ڈومیسٹک فلائٹس میں اس کو پانچ سال کا ایکسپیرینس نہ ہو جائے لہذا اس نے جلدی کے چکر میں ایئر ٹیکر نام کی ایک دوسری ایئر لائن خرید لی ایک تو یہ سودا مارکٹ پرائس سے کافی زیادہ پیسوں پر ہوا اور اوپر سے یہ لون کا پیسہ تھا جو وجے مالیہ نے انڈیا کے بینک سے لیا تھا اس کا پلان سمپل تھا کہ لون کا پیسہ لو ایئر لائن میں لگاؤ اور ریٹرن پانے پر لون چکا دو کہنے کو تو بہت سمپل بات ہے لیکن اصل میں یہ ایک ایسا دھیان تھا جس میں سب سے بڑی کنڈیشن ریٹرن ملنے کی تھی بہرحال کنگ فشر اب ایک انٹرنیشنل ایئر لائن بن چکی تھی اور پیسنجرز بھی کافی خوش تھے لیکن اندر ہی اندر ایئر لائن قرضوں تلے دبتی چلی گئی جس وقت یہ سارے معاملات چل رہے تھے اسی وقت وجے مالیہ فارمولا ون کی ٹیم خرید رہے تھے اس کے علاوہ انہوں نے کرکٹ کی ٹیمز خریدی جو کہ ان کا اپنا شوق تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی ایئر لائن پر قرضے کا پیسہ لگا ہوا ہے اس کے بعد کچھ ایسا ہوا جس سے صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی ایئر لائنز مشکل میں پڑ گئیں 2008 میں امریکن مارکیٹ میں ریسیشن اگیا اسٹاک مارکیٹس کریش ہو گئی فیول پرائسز بڑھ گئی اور لوگوں کی پرچیزنگ پاور کم ہو گئی جب بھی ریسیشن اتا ہے تو لوگ اپنے خرچوں کو لگام لگا لیتے ہیں جس میں فالتو کا ٹریول سب سے پہلے مارا جاتا ہے اب کیونکہ یو ایس ڈالرز ایک انٹرنیشنل کرنسی ہے اسی وجہ سے اس کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا فیول پرائسز میں تین گنا اضافہ ہو گیا کمپنیز نے اپنے ٹرپس کینسل کیے جبکہ ٹورسٹ نے کم اس سچویشن میں صرف وہی ایئر لائن سروائیو کر سکتی ہیں جو خواہ مخواہ کے فضول خرچے نہیں کرتی پر کنگ فشر ایر لائن تو فیمس ہی اپنے ایکسٹرا ویگننٹ خرچوں کی وجہ سے تھی انہوں نے ریسیشن میں بھی اپنے خرچے کم نہیں کیے ان کے ریٹس دوسری ایئر لائنز کے مقابلے میں کم تھے اور سروسز بہت اعلی اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ کنگ فشر ایئر لائن بری طرح لاس میں چل رہی ہے اور اس کا بھانڈا ایک نہ ایک دن پھوٹنا ہی تھا جب یہ بانڈا پھوٹا تو وہ نئے پول بھی کھول بیٹھا 12 ستمبر 201 کو ایک کینیڈین ریسرچ فارم کی طرف سے رپورٹ پبلش ہوتی ہے جس کا ٹائٹل تھا پائے اندا اس کا ہے اس رپورٹ میں جو کچھ پبلش کیا گیا اس نے کنگ فشر ایر لائن کے سارے کچے چھٹے کھول کر رکھ دیے اصل میں ایریٹاس نامی اس ریسرچ فارم نے دیکھا کہ جس وقت دنیا کی تمام ایئر لائنز گھاٹے میں جا رہی ہیں اسی وقت کنگ فشر کی فلائٹس ادھی خالی جانے کے باوجود بھی لوگوں کو شاندار سروسز دے رہی ہیں جب ان کو معاملہ گڑبڑ لگا تو انہوں نے جانچ پڑتال شروع کر دی معلوم پڑا کہ کنگ فشر ایر لائن کے خرچے ان کی سیل سے بھی زیادہ تھے اور یہ رپورٹ تب مزید انٹرسٹنگ ہو گئی جب اس میں یہ بتایا گیا کہ یہ سارے خرچے اصل میں لون کے پیسے ہیں جو کنگ فشر نے مختلف بینک سے لیے تھے اکتوبر 2019 میں ائی ڈی بھی ائی جو کہ ایک پبلک سینٹر کا بینک ہے انہوں نے کنگ فشر کو 200 ملین ڈالرز کا لون دیا اب نارملی جب بھی کوئی بینک لون دیتا ہے تو وہ پہلے تسلی کرتا ہے کہ جس کو لون دیا جا رہا ہے وہ واقعی لون چکا بھی پائے گا یا نہیں جس کے لیے وہ کوئی شورٹی بھی رکھتے ہیں لیکن وجے مالیہ نے بینک کو چھوٹے ڈاکومنٹس نکال کر بتایا کہ کیسے انے والے وقت میں ان کو اتنا فائدہ ہوگا اور وہ یہ سارے پیسے واپس کر دیں گے اب کیونکہ اس وقت کنگ فشر اور وجے مالیہ کا بڑا نام تھا اس وجہ سے بینک نے صرف نام پر ہی یہ سارا لون پاس کرجو کہ ایک بہت ہی غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی 2019 اور 2010 میں کنگ فشر ایر لائن نے ٹوٹل جتنے بھی خرچے کیے تھے وہ یہاں تو لون لے کر کیے یا پھر کریڈٹ پر سروس لے کر جس کا فگر سات ارب ڈالرز تک ریکارڈ کیا گیا ویری ٹاسک کی اس رپورٹ نے پورے بھارت میں صاف صاف لکھا تھا کہ کنگ فشر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اس رپورٹ کے بعد کنگ فشر کو کریڈٹ پہ فیول ملنا بند ہو گیا اور تو اور نوبت یہاں تک ا پہنچی کہ کیٹرنگ سروس جو پیسنجرز کے لیے بہترین کھانا پرووائڈ کرتی تھی ان کو بھی کئی مہینوں سے پیسے نہیں ملے اور انہوں نے بھی مزید کھانا دینے سے انکار کر دیا یہ کنگ فشر ایئر لائن اور وجے مالیہ کے لیے بہت مشکل وقت تھا اس دوران فلائٹس میں پیسنجرز کے لیے کھانے کی شارٹیج ہونے لگی اور ایک موقع پر فلائٹ اٹینڈنٹس نے اپنا کھانا بھی پیسنجرز کو افر کیا اس کے بعد وہ دن بھی اگیا جب کنگ فشر ایئر لائنز کے اسٹاف کی سیلریز بھی بند ہو گئی ان کو امید دکھائی گئی کہ کمپنی جلد ہی نقصان کی چکائی کر کے سب کو سیلریز دے گی ایسے کرتے کرتے چھ مہینے گزر گئے لیکن کسی کو سیلری کا ایک روپیہ بھی نہیں ملا اسٹاف نے پروٹیسٹ کیے لیکن وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا افسوس کی بات یہ تھی کہ جب یہ سب کچھ چل رہا تھا 900 ایمپلائیز کو چھ مہینوں سے سیلریز نہیں ملی تھی اسی وقت وجے مالیہ ایک فارمولا ون ٹیم اور کرکٹ ٹیم چلا رہے تھے بے شک اس وقت کنگ فشر ایر لائن کے پاس پیسے نہیں تھے لیکن وجے مالیہ کے پاس تھے اس کے شہانہ لائف سٹائل میں کسی قسم کی کمی نہیں ائی اور یہ سب جب کنگ فشر کے ایمپلائیز دیکھتے تو ان کا خون مزید کھولنے لگتا اسی بیچ ممبئی کے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے ٹیکس نہ دینے پر دو مرتبہ کنگ فشر ایر لائنز کے بینک اکاؤنٹ سیز کر دیے 2012 کی شروعات میں کنگ فشر کے ادھے سے زیادہ جہاز گراؤنڈ ہو گئے اور یہ اپنا ٹاپ انڈین ایئر لائن کا ٹائٹل بھی کھو بیٹھی اک توبر 2002 میں ڈائریکٹریٹ جنرل اف سول ایوییشن نے کنگ فشر کا لائسنس سسپینڈ کر دیا اور یہ کنگ فشر ایر لائن کا اخری دن تھامالیہ نے 17 انڈین بینک سے ٹوٹل 9 ہزار کروڑ روپےوں کا لون لیا تھا ان میں سے زیادہ تر پیسہ پبلک سیکٹر بینکس کا پیسہ تھا یعنی یہ عوام کا پیسہ تھا لون واپس نہ ملنے پر بینکس نے وجے والیا کے خلاف کیس فائل کیا جس میں بتایا گیا کہ وجی یعنی اس نے جان بوجھ کر بینک سے تب لون لیا جب اس کو معلوم تھا کہ اس کی ایئر لائن ڈوب رہی ہے اس سارے معاملے کو لے کر سی بی ائی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ نے بھی انکوائری کی جس میں یہ معلوم ہوا کہ لون لیتے وقت وجے ملیا نے فیک ڈاکومنٹس دکھا کر بینک سے لون لیے تھے اور انویسٹیگیشن میں اس چیز کے بھی ثبوت ملے کہ جو پیسہ کنگ فشر ایئر لائن کو بچانے کے لیے لیا گیا تھا وہ اصل میں اس نے اپنی پرسنل لگزریز اور یو بی کے دوسرے بزنس میں انویسٹ کیا یہ ساری باتیں تو رہی ایک طرف دوسری طرف وجے مالیہ کے خلاف لوگوں کا غصہ تب مزید بڑھ گیا جب اس نے ان حالات میں بھی اپنی 68 برتھ ڈے گواہ میں بڑی شان کے ساتھ سیلیبریٹ کی جس میں فیمس سنگر اینری کے گلیزیس کو بلایا گیا اس پارٹی میں ہونے والے دوسرے خرچے ہٹا کر اینڈ ریکے کی کارپوریٹ ایونٹ میں انے کی فیس ہی صرف ڈیڑھ ملین ڈالرز تھی یعنی ایک اندازے کے مطابق اس پارٹی پہ ہونے والے خرچے کا صرف 20 پرسنٹ دے کر وہ کم از کم اپنے ایمپلائیز کی چھ مہینے کی سیلری پے کر سکتا تھا جو اس وقت بڑی مشکل میں تھے جب وجے مالیہ کے خلاف انڈیا میں لیگل کاروائی شروع ہوئی تو وہ 2006 میں انڈیا چھوڑ کر یو کے چلا گیا انڈین اتھارٹیز نے اس کے پاسپورٹ کو کینسل کر دیا اور ان کے خلاف ایکسٹرا ایڈیشن کے لیے یو کے گورنمنٹ کے پاس ریکویسٹ بھیج دی انڈین گورنمنٹ جا رہی تھی کہ ملایا کو واپس لایا جائے تاکہ اس کا ٹرائل انڈیا میں ہو سکے یو کے کورٹس میں ایکسٹرا ایڈیشن کیس کافی لمبا چلا لیکن دسمبر 2018 میں یو کے کورٹ نے ڈیسائڈ کیا کہ وجے مالیہ کو انڈیا واپس بھیجا جائے جس پر ملایا نے یو کے کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی دوسری طرف انڈین کورٹس میں وجے مالیہ کے خلاف ان سالوسی کے کیس چل رہے تھے اور اس کی ججمنٹ بھی ا چکی تھی جس کے تحت اس کی پراپرٹیز کو سیز کرنے کا ارڈر دیا گیا انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ نے اس کے انڈین اور انٹرنیشنل ایسٹس کو فریز کر دیا تاکہ بینکس کو ریکوری کی جا سکے ملایا کی لگزری کارز بنگلوز اور یو بی کے کمپنی شیئرز کو اپشن کے لیے رکھا گیا مجھے مالیہ نے کئی بار انڈین کورٹس اور بینک سے سیٹلمنٹ کی کوشش کی لیکن کوئی سکسیس نہیں ملی کنگ فشر ایر لائنز کے کولیپس کے بعد وجے مالیہ کا پبلک امیج کافی خراب ہو گیا اس پر میڈیا اور لوگوں نے کافی کریٹیسائز کیا اسپیشلی کیونکہ وہ یو کے میں لگزری لائف جی رہا تھا جبکہ انڈیا میں اس کے اوپر قرضہ چکانے کا دماغ تھا ابھی تک وجے مالیہ کی لیگل ٹیم اس کو بجائے ہوئے ہے لیکن انڈیا میں اس کو واپس لانے کی کوششیں ابھی تک چل رہی ہیں۔

کمنٹ سکشن میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا۔

Categories: Trending

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *